واشنگٹن،2جون(ایس اونیوز/آئی این ایس انڈیا)جہاں ایک طرف عراق اور شام میں اتحادی افواج داعش کے خلاف برسرجنگ ہیں تو دوسری طرف امریکی آئمہ کرام کا ایک گروپ دہشت گرد تنظیم کے خلاف دوسری نوعیت کے معرکے میں نبرد آزما ہے۔ جی ہاں یہ معرکہ انٹرنیٹ کا ہے جس میں آئمہ کے گروپ کے ہتھیار قرآن کریم اور احادیث نبوی ہیں۔ مذکورہ آئمہ کرام داعش کے دعوؤں کی تردید کرتے ہوئے ان کو جھوٹا ثابت کرتے ہیں جو مسلمانوں کے خلاف بھی قتل اور اذیت رسانی کی کارروائیوں کا جواز پیدا کرنے کے لیے مذہبی علمی مراجع کا سہارا لیتی ہے۔دارالحکومت واشنگٹن کے وسط میں بعض مسلمان ایک جگہ کرائے پر حاصل کر کے وہاں جمعے کی نماز کا انتظام کرتے ہیں۔ یہاں صہیب نامی امام نمازیوں کے سامنے خطبہ دیتے ہیں۔ ان کی تقریر اعتدال پر مبنی ہوتی ہے جس میں وہ روز مرہ کی زندگی اور دنیاوی امور پر گفتگو کرتے ہیں جو کہ سخت گیر عناصر کو نہیں بھاتی۔ امام صاحب کے کے نزدیک داعش کا اسلام سے کوءِی تعلق نہیں رہا ہے اور وہ قرآن کریم کی تحریف کرتی ہے اور مذہبی متون سے اس کا سہارا لینا قطعا باطل ہے۔امام صہیب اس میدان میں اکیلے نہیں ہیں۔ کیلیفورنیا میں شیخ حمزہ یوسف بھی ہیں جو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا سہارا لے کر داعش کے انحراف کو نمایاں کرتے ہیں اور نوجوانوں کو اس تنظیم کے زیر اثر آنے سے روکتے ہیں۔ یہ معاملہ داعش سے چھپا ہوا نہیں ہے جس نے امریکا سے لے کر آسٹریلیا تک مغربی دنیا میں رہنے والے 11 آئمہ مساجد کو قتل کی سنگین دھمکی دی ہے۔صہیب ویب نے شرعی علوم کی تعلیم جامعہ الازہر میں حاصل کی، انہوں نے زندگی کی دوسری دہائی کے دوران اسلام قبول کیا تھا۔ صہیب کے خیال میں جو لوگ داعش سے منسلک ہوتے ہیں وہ گمراہ کیے گئے ہوتے ہیں ان میں بعض تنہائی کا شکار ہوتے ہیں اور یہاں تک کہ بعض تو نفسیاتی مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔ مسلمانوں اور اہل کتاب کے خلاف داعش کی کارروائیوں کی قرآن و حدیث میں کوئی تفصیل نہیں ملتی ہے۔انٹرنیٹ پر یوٹیوب، انسٹاگرام اور ٹوئیٹر کا استعمال کرتے ہوئے انٹرنیٹ پر آئمہ کرام کی قابل توجہ سرگرمیوں کے بعد داعش نے انہیں قتل کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اس کے ہمنواؤں کے ہاتھ بہت لمبے ہیں جو ان آئمہ کرام کے پیچھے کہیں بھی پہنچ سکتے ہیں۔ امریکی ایف بی آئی نے ان دھمکیوں کو سنجیدگی سے لیا۔ ایف بی آئی کے ترجمان اینڈرو ایمس کا کہنا تھا کہ جن لوگوں کو دھمکیاں موصول ہوئی ہیں ان کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے پوری مدد کی جارہی ہے۔ تاہم آئمہ کرام اس امر پر مُصر ہیں کہ اسلام میں شدت پسندی کی کوئی جگہ نہیں۔عام طور پر مغرب کی جانب سے مذہبی شخصیات پر تنقید کی جاتی ہے کہ وہ داعش کے خلاف بلند آواز کے ساتھ بات نہیں کرتے ہیں جب کہ دوسری طرف شدت پسند تنظیمیں ان افراد کو کفر کا آلہ کار شمار کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ آئمہ کرام دائیں بازو کے گروپ کے ساتھ بھی برسرجنگ ہوتے ہیں جو آخرکار حقیقی اسلام کے پیغام اور شدت پسندی میں کوئی فرق نہیں کرتے ہیں۔